ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

سینکڑوں طلبہ اور طلبہ تنظیموں کے اراکین کے ساتھ ملاقات

انقلابی اہداف کے بارے میں تفکر، عہدیداروں سے سنجیدہ اور حقیقی کام کا مطالبہ

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج شام (منگل) سینکڑوں طلبہ اور طلبہ تنظیموں کے اراکین کے ساتھ ملاقات میں یونیورسٹی کو انقلاب کے بنیادی ارکان میں سے ایک قرار دیا اور  "یونیورسٹی کے بارے میں انقلابی نقطہ نظر اور ضد انقلابی و رجعتی نقطہ نظر" کے اہم اور جاری کشمکش کے نتائج اور ثمرات کی وضاحت کی۔انہوں نے کہا: اسلامی جمہوریہ کو آج اپنی یونیورسٹی پر فخر ہے اور نوجوان طالب علم کو چاہیے کہ ملک کے اہم مسائل میں گہرائی سے سوچتے ہوئے اور کسی قسم کی بے عملی اور مایوسی سے گریز کرتے ہوئے انقلابی اہداف کے بارے میں سوچیں اور ملک کے حکام سے سنجیدہ اور حقیقی کام کا مطالبہ کریں۔ 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آئندہ عالمی یوم القدس پر بھی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: فلسطینی عوام کی عظیم قربانیوں اور صیہونی مظالم کی انتہا کو دیکھتے ہوئے اس سال یوم القدس گزشتہ سالوں سے مختلف ہے اور ہمیں فلسطین کے مظلوم مگر طاقتور لوگوں کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ انکے حوصلے اور طاقت میں اضافہ ہو۔

اپنی تقریر کے آغاز میں انہوں نے طلبہ تنظیموں کے نمائندوں کی مخلصانہ اور بے تکلفانہ باتوں پر مسرت کا اظہار کیا اور مزید کہا: ’’اس طرح کے اظہارِ بیان مفید اور باعث مسرت ہوتے ہیں، یقیناً ان میں سے بہت سے سوالات کے جوابات موجود ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ طلباء اور عہدیداروں کے درمیان کوئی گفت و شنید نہیں ہوتی اور مختلف اداروں کے عہدیداروں کو یونیورسٹیوں میں جاکر مطالبات اور خدشات کا جواب دینا چاہئے اور اگر ان کے پاس کسی مسئلے کا جواب نہیں ہے تو وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے طلباء کی تجاویز اور بیانات سے استفادہ حاصل کریں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے نہج البلاغہ میں امیرالمؤمنین ع کے ارشادات کا حوالہ دیتے ہوئے وعظ و نصیحت کو دل کو زندہ کرنے والا عمل قرار دیا اور نصیحت کرتے ہوئے سورہ مریم کی ایک آیت کا حوالہ دیا اور فرمایا: قیامت کا دن۔ افسوس کا دن ہے اس طرح زندگی گزاریں کہ اس مشکل دن میں ہمیں کچھ کرنے یا نہ کرنے پر یا کچھ کہنے یا نہ کہنے پر پچھتاوا نہ ہو کیونکہ اس کی تلافی نہیں ہو سکتی۔

آیت اللہ خامنہ ای نے یونیورسٹی کے بارے میں انقلابی اور ضد انقلابی نقطہ نظر کے ٹکراؤ کے دیگر پہلوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا: "انقلاب نے یونیورسٹی کو علم کی پیداوار اور سائنسی ترقی کے مرکز کے طور پر دیکھا اور اس طرح ایک قومی اقتدار فراہم کرنے والے مرکز کے طور پر دیکھا۔ لیکن ضد انقلاب پسماندہ نظریہ موجودہ یونیورسٹیوں کو مغربی علم کی کم متروک باقیات کو سیکھنے کا مرکز بنانا چاہتے تھے تاکہ مغرب کے لیے صارفی پروفیسر اور سائنسدان کی تربیت کرکے اور ان کے ذریعے معاشرے کا نظم و نسق سنبھالا جاسکے۔

انہوں نے مزید کہا: "انقلابی نقطہ نظر نے یونیورسٹی کو ممتاز صلاحیتوں کے مالک طلاب کی تربیت، مسائل کے حل اور ملک کی ترقی کے لیے ایک مرکز کے طور پر دیکھا، لیکن دوسرے نقطہ نظر نے یونیورسٹی کو مغرب کی طرف سے مطلوبہ پھل کی کاشت کرنے کی جگہ کے طور پر دیکھا۔"

انہوں نے یونیورسٹی میں دین داری اور اسکے مقابل لادینیت کو انقلابی اور ضد انقلابی نظریہ کے ٹکراؤ کا تیسرا نتیجہ جانا اور مزید کہا: "یقیناً مختلف وجوہات کی بناء پر وہ جامعات کو مکمل طور پر مذہب سے پاک کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اور مقدس دفاع کے سرداروں اور سائنسی شہداء  میں سے بہت سے انقلاب سے پہلے کے تعلیم یافتہ طلباء تھے۔

رہبر معظم انقلاب نے "یونیورسٹی کو شناخت دینا" انقلاب کا عظیم کارنامہ قرار دیا اور مزید فرمایا: "انقلاب نے قوم کو "شناخت، ہدف، شخصیت، آزادی اور افق" عطا کیا اور نتیجتاً یونیورسٹی کو بھی ان خصوصیات سے سرفراز کیا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے احساس کمتری اور کمزوری سے نجات اور مغربی اور مشرقی استکبار کے مقابلے میں کھڑے ہونے کو یونیورسٹی کے تشخص پانے اور اسے شخصیت ملنے کا نتیجہ قرار دیا اور فرمایا: ان دنوں نوجوان طلباء خود مختاری اور استکبار  کے خلاف کھڑے ہونے کی مٹھاس کو اپنے پورے وجود کے ساتھ درک کرتے تھے۔

انہوں نے یونیورسٹی میں انقلاب کی تحریک کو درست، مضبوط اور قابل ستائش قرار دیا اور اس تحریک کی عظیم کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: بعد میں یونیورسٹیوں کی اسلامی انجمنیں اور پھر بسیج طلباء اور اساتید کی تنظیم  نے یونیورسٹیوں میں انقلاب کے جھنڈے گاڑ دیے اور گہری فکری اور نظریاتی بحثوں کی یونیورسٹیوں میں  تشکیل ہوئی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے پہلے حصے کا خلاصہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ کو اپنی یونیورسٹی پر فخر ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں یونیورسٹی کے حوالے فکرمند بھی رہنا ہوگا۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: "آج طلباء کی کثرت اور تعداد، پروفیسروں کی تعداد، نمایاں سائنسی ترقی اور پیشرفت، ممتاز طلاب کی تربیت، انتظام کے مختلف شعبوں میں یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل افراد کی موجودگی، اور جامعات میں دینداری کے لحاظ سے صورت حال اوائل انقلاب کے مقابلے میں بے مثال ہے اور اسلامی جمہوریہ اپنی یونیورسٹیوں پر واقعی فخر کر سکتا ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ موجودہ صورتحال میں یونیورسٹی کے بارے میں کیوں فکر مند ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا: "مغرب وابستہ اور پسماندہ ضد انقلابی دھارا، جس کا تعلق غیر ملکی جڑوں سے تھا، اب بھی فعال ہے اور نوآبادیاتی نظام کی حمایت اور رہنمائی کے ساتھ یونیورسٹیوں کے لیے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ لہذا فکرمند رہنے کی ضرورت ہے۔”

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج کی یونیورسٹیوں کے اوائل انقلاب کے مقابلے میں موثر تر ہونے میں ایک اور اہم نکتہ ملکی مسائل پر ان کے اثرات کی حد قرار دیا اور فرمایا: آج یونیورسٹیوں کے وسیع میدان نے ملک کے مسائل پر اپنے اثرات کو بہت زیادہ بڑھا دیا ہے اور یہ فکرمند ہونے کی ایک اور وجہ ہے۔ اس لیے ہمیں دو شعبوں میں یونیورسٹیوں کے بارے میں سنجیدگی سے فکر مند ہونا چاہیے: 1- انکی پہچان اور شناخت کا ختم ہونا 2- انکا بے ہدف ہوجانا

انہوں نے مزید کہا: "شناخت کو ختم کرنا وہی نظریہ ختم کرنا ہے کیونکہ نظریہ کسی قوم کی سوچ، اقدار اور شناخت ہے۔"
رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: "امریکی مسلسل امریکی اقدار یعنی اپنے نظریے پر زور دیتے ہیں۔ نظریے کو ختم کرنے کی بات کرنے والے کیونکر امریکیوں سے نظریے کی پاسداری کے بارے میں سیکھنے کو تیار نہیں ہوتے؟

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: "شناخت ختم کرنے کا مطلب ہے نظریات کی بنیادوں اور ملک کے تاریخی اور قومی نقطہ نظر کی تحقیر کرنا، ملک اور انقلاب کے ماضی کی تحقیر کرنا، عظیم کاموں کو چھوٹا دکھانا اور کچھ نقائص کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا"۔

انہوں نے بیان کیا کہ شناخت کو ختم کرنے کا مقصد مغربی فکری نظام کو قومی اور مذہبی شناخت کے جایگزین کرنا ہے اور اقوام متحدہ کی 2030 دستاویز کو مغربی استعماری نوآبادیاتی تسلط کے مظہر میں سے ایک قرار دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: مغربی نظامِ فکر کے مطابق ملک میں فکر و ثقافت کے عظیم ورثے کو ختم یا مٹایا جانا چاہیے، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جو قومی غیرت اور حمیت کی چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے تیار ہے ان کو نا امید اور مایوس کیا جائے اور نوجوان نسل میں تعطل کا احساس پیدا کیا جائے۔ لہذا فکر مند رہنے کی ضرورت ہے اور جرئت اور اچھے طرزِ بیان اور مضبوط منطق کے ساتھ اس رجحان کے خلاف کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔

رہبر معظم انقلاب نے بے ہدف ہوجانے کو دوسرا اہم خطرہ قرار دیا اور فرمایا: بے ہدف ہوجانے کی مثالوں میں سے ایک نوجوان اور طالب علم نسل کی "غربت، بدعنوانی اور امتیازی سلوک" کے تئیں لاتعلقی ہے جو کہ تین بڑے شیطان اور خبیث عناصر ہیں.

آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: "بے ہدفی کے مصادیق میں سے نوجوانوں کی مغرب کے ثقافتی تسلط کی نسبت بے حسی اور انقلاب اسلامی کے معیارات کی نسبت ان میں چاہت کا فقدان پیدا کرنا ہے۔"

انہوں نے ظلم اور جبر کے خلاف مزاحمت کو انقلاب اسلامی کے معیارات میں شمار کیا اور کہا: ان اشاریوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور اقوام عالم کو اسلامی ایران کی جانب میں متوجہ کر دیا۔ پچھلے سالوں میں جو بھی صدر مملکت کسی بھی سیاسی فکر کے حامل اپنے عہدے پر رہے جب وہ غیر ملکی دوروں پر جاتے تھے تو وہاں کے لوگوں نے ان کے لیے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور امریکی پرچم کے برعکس جسے وہ جلاتے ہیں، وہ اسلامی جمہوریہ کے پرچم کو کھولتے اور لہراتے تھے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے "خالص اسلام کی طرف پلٹنا اور ارتجاع کی نفی" اور "مسئلہ فلسطین" کو انقلاب اسلامی کی دیگر خصوصیات میں شمار کیا اور فرمایا: عدم شناخت اور بے ہدفی کا ایجاد دو اہم مسائل ہیں جن پر توجہ دی جانی چاہیے۔ لیکن یہ بے ہدفی، عدم شناخت، عدم اشکال کون چاہتا ہے اور وہ کس حد تک کامیاب ہوئے یا نہیں، یہ جانچنا علمی طبقے اور ماہرین کی ذمہ داری ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ماضی کے مقابلے میں ان خدشات کی اہمیت کا اظہار کرتے ہوئے مزید فرمایا: "آج دنیا ایک نئے بین الاقوامی نظام کی دہلیز پر ہے، جو دو قطبی عالمی نظام، یک قطبی نظریہ کے دور کے بعد تشکیل پا رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ اس مدت میں دن بدن کمزور ہوتا چلا آیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: "یوکرین کی حالیہ جنگ کے معاملات کو مزید گہرائی سے اور ایک نئے عالمی نظم (ورلڈ آرڈر ) کی تشکیل کے تناظر میں

دیکھا جانا چاہیے، جس کے بعد پیچیدہ اور مشکل عمل کا امکان ہے۔ ایسی نئی اور پیچیدہ صورت حال میں اسلامی جمہوریہ سمیت تمام ممالک کا فرض ہے کہ اس نئی ترتیب میں اپنی ہارڈویئر اور سافٹ ویئر موجودگی کے ذریعے اپنے مفادات اور سلامتی کے حصول کو یقینی بنائیں اور کنارہ کش نہ ہوجائیں۔"

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے اس حصے کے آخر میں مفکرین، ماہرین اور نظریہ سازوں سے آپس میں بیٹھنے اور ان مسائل پر گفتگو کرنے کی تاکید کی۔

اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں رہبر معظم انقلاب نے طلبہ اور طلبہ تنظیموں کو کچھ عملی سفارشات دیں۔
ان کا پہلا مشورہ تھا "عدم تحرک اور مایوسی سے مکمل اجتناب"، جس میں انہوں نے کہا: "آپ کو دوسرے شعبوں میں امیدیں افزائی کا منبع ہونا چاہیے، کیونکہ جس طرح ملک نے سائنس، ٹیکنالوجی اور صحت جیسے مختلف شعبوں میں حیران کن ترقی کی ہے۔ حالیہ برسوں میں دوسرے شعبوں میں بھی تمام نقائص کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے جوانوں اور طلباء کی مایوسی کو ملک کی ترقی کے دوسرے شعبوں پر منفی اثر کا باعث قرار دیا اور فرمایا: دفاع مقدس کے دوران جبکہ بعض نے اس بات پر تاکید کی کہ دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، آپ کی عمر کے جوانوں نے اپنی کوششوں سے ملک کو نجات دی اور خرمشہر کو آزاد کروا کر دنیا کو حیران کر دیا۔

انہوں نے مزید کہا: "یقینا، پچھلی نسلوں کے کچھ افراد نے، خطا اور مایوسی کی وجہ سے، میدان چھوڑ دیا یا دوسروں کے ساتھ شامل ہو گئے، اس لیے ہوشیار رہیں کہ کبھی بھی اوج حاصل کرنے اور اہداف سے منہ نہ موڑیں۔"
رہبر معظم انقلاب کا اگلا مشورہ "تفکر کرنا اور فکر کو مضبوط کرنا" تھا۔

انہوں نے "تفکر کے بغیر سائنس" کے نتیجہ کو نقصان دہ انسانی مصنوعات جیسا کہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو قرار دیا اور کہا: "صحیح تفکر کو ایک ایسے استاد اور رہنما کی ضرورت ہے جس میں مثال کے طور پر مرحوم آیت اللہ مصباح فکری امور میں ایک ماہر اور رہنما مرجع تھے۔"

اپنی اگلی نصیحت میں آیت اللہ خامنہ ای نے طلباء سے مطالبہ کیا کہ وہ "ملک کے اہم مسائل میں گہرائی سے دقت کریں اور ان سے رابطے میں رہیں"، مزید فرمایا: "جب آپ ایک یا دو مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کے بارے میں سوچتے اور تحقیق کرتے ہیں، تو اس کے نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ گہرائی سے کی گئی تحقیق متعلقہ شعبوں میں قابل استعمال ہو گی۔

انہوں نے اس سال کے نعرے، علم محور پیداوار، کو طلبہ تنظیموں کے لیے ایک توجہ طلب موضوع قرار دیتے ہوئے کہا: اس مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک فکری نظام تیار کریں، اور علم محوریت میں خلل ڈالنے والے اجزاء جیسے کہ ملک میں رائج خام فروشی یا غیر ضروری درآمدات یا اسمگلنگ کے خلاف تحرک پیدا کریں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلبا کی فطرت کو مطالبہ کنندہ قرار دیا اور تاکید کی: حکام سے سنجیدہ اور حقیقی کارکردگی کا مطالبہ کریں اور انہیں نمائشی کاموں سے دور رہنے کی تاکید کریں۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مطالبہ منطقی، معقول، شدت پسندی و محاذ آرائی سے دور، نفاست اور ادب کے ساتھ ہونا چاہیے، انہوں نے کہا: "معقول مطالبات کچھ لوگوں کو ایسے حالات میں طلباء کے کردار کی اہمیت پر تردید ایجاد کرنے سے روکتے ہیں جب ملک کا انتظامی نظم و نسق انقلابی ہے، کیونکہ اس دور میں آپ کا کردار زیادہ اہم ہے۔"

آیت اللہ خامنہ ای نے اس سلسلے میں مزید فرمایا: شدت پسندانہ رویے سے پرہیز کا مطلب سمجھوتہ کرنا اور غیر ضروری تعریف کرنا نہیں ہے اور میں نے کبھی بھی نوجوانوں اور طلباء کو ایسی نصیحتیں نہیں کی ہیں اور نہ ہی کروں گا، لیکن اس نصیحت کا مقصد نقصان دہ اور طنزیہ طرز بیان سے پرہیز کرنا ہے، جو بدقسمتی سے آج کے دور میں سائبر اسپیس میں بھی بہت رائج ہوچکا ہے۔

انہوں نے طلباء کے مطالبات کے میدان کو معاشی عدالت، ثقافت اور طرز زندگی کے متعدد مسائل قرار دیا اور صحیح مطالبات کے ایک اور تقاضے کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: دینی اور اخلاقی علماء کی مجالس میں شرکت اور مطالعہ کے ذریعے اپنے عقائد کو مضبوط بنائیں۔
رہبر معظم انقلاب نے درست مطالبے کے نتیجہ کو بعض منتظمین کے کمزور اقدامات سے اعلی نظریات کی ضروری تفریق قرار دیا اور دیگر نصیحتوں کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: آپ کے مطالبات ایسے ہونے چاہئیں کہ مسائل کے اظہار اور انکے حل پیش کرنے میں آپ متعصب دشمن کے ہمنوا نہ ہوجائیں۔

"طلباء کی بین الاقوامی سرگرمیوں کی توسیع" ایک اور نکتہ تھا جس پر آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی: "یورپ اور امریکہ کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک میں بہت سے نوجوان اور طلباء گروہ استکباری پالیسیوں کے خلاف سرگرم ہیں جن سے درست ارتباط ان استکبار مخالف عناصر سرگرمیوں میں اضافی جان ڈال سکتا ہے اور اسی ذریعے سے انکو اسلامی جمہوریہ سے متعارف کروا کر، استکباری نیوز نیٹورک کے خلاف ملک کے لیے ایک دفاعی ڈھال ایجاد کی جاسکتی ہے۔ بلاشبہ، پڑوسی ممالک، یعنی افغانستان، پاکستان اور عراق کے طلباء کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے پر ہمارا زیادہ زور ہے۔

رہبر معظم انقلاب کی آخری نصیحت ان نوجوانوں سے تھی جو نئی حکومتی مدت میں تینوں سربراہی اداروں کی انتظامی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ کا کام ایماندار اور حوصلہ مند نوجوان فورس کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا، مزید کہا: "میری نصیحت جوانوں کو ہے کہ وہ موجودہ عہدہ کو بڑے عہدے کے لیے سیڑھی نہ بنائیں اور جہاں بھی ہوں مسائل پر توجہ دیتے ہوئے خدا کے لیے کام کریں اور دوسرا یہ کہ ملک کے امور میں سے جو حصہ ان کے سپرد کیا گیا ہے انا کے حل کو اپنا ہدف قرار دیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں آنے والے عالمی یوم القدس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سال یوم القدس کو گزشتہ سالوں سے مختلف قرار دیا اور فرمایا: فلسطینی عوام اور نوجوان عظیم قربانیاں دے رہے ہیں اور صیہونی حکومت نے اپنی ہر ممکن خباثت اور انتہائی گھٹیا پن سے کام لیا ہے اور وہ جو جرم کروسکتی ہے انجام دے رہی ہے اور امریکہ اور یورپ اس کی حمایت کرتے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مظلوم فلسطینی عوام کو مظلوم ہوتے ہوئےبطاقتور قرار دیا اور فلسطینی نوجوانوں کی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے جو فلسطینی کاز کو فراموش نہیں ہونے دیتے، مزید فرمایا: یوم قدس مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کے اظہار اور ان کو حوصلہ دینے کا ایک اچھا موقع ہے۔"

انہوں نے مسئلہ فلسطین کی نسبت اسلامی ریاستوں کے اقدامات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا: "بدقسمتی سے اسلامی ریاستیں بہت بری طرح سے عمل کر رہی ہیں اور مسئلہ فلسطین پر بات کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں اور ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ فلسطین کی مدد کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ صیہونیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرلئے جائیں جبکہ یہ بہت بڑی غلطی ہے!"

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چالیس سال قبل مصری حکومت کی طرف سے صیہونیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی عظیم غلطی کا ذکر کرتے ہوئے مزید فرمایا: کیا صیہونی حکومت کے ساتھ مصر کے تعلق سے فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی جرائم میں کمی آئی اور مسجد الاقصی کی بے حرمتی میں کمی آئی؟ کہ جو اب کچھ اسلامی ریاستیں انور سادات کی وہی غلطی دہرانا چاہتی ہیں؟
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، فرمایا: ہم امید کرتے ہیں کہ خدا کے فضل سے فلسطین میں مزاحمت کا انجام اچھا اور خوشحال کنندہ ہوگا اور فلسطینیوں کا اپنی سرزمین اور مسجد اقصیٰ پر تسلط کا ہدف جلد ہی مکمل ہو جائے گا۔"

رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل ملک کی اہم طلبہ تنظیموں کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

بسیج طلبہ کی جانب سے محسن مراقی صاحب، اسلامک اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے محمد حسین کاظمی، اسٹوڈنٹ جسٹس موومنٹ کی جانب سے محمد اسکندری، دفتر تحکیم وحدت کی جانب سے علی بزرگ‌خو، اسلامی آزاد طلبہ انجمن کی جانب سے امیر حسین پناہی اور محترمہ زہرا سعادت رضوی علوی نے طالبات کی طرف سے ان نکات کو اپنی گفتگو کا محور قرار دیا:


- موجودہ صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے نظام حکومت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
- پرانے ڈھانچے کو تبدیل کرکے اور نئے میکانزم بنا کر ملکی انتظامیہ کے سافٹ ویئر کو اپ ڈیٹ کرنا
- منصفانہ، ایماندار اور بہادر  حکمرانی کا قیام 
- ڈگری محور تعلیم سے بچنے اور یونیورسٹیوں میں اپلائیڈ سائنس کی طرف بڑھنے کی ضرورت
- سائنسی اداروں کا نظام سے متعلق مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
- یونیورسٹیوں اور دینی درسگاہوں میں فکری مباحث اور خیالات کے تبادلے کے لیے ضروری زمینہ پیدا کرنے کی ضرورت
- اختیارات اور آئینی امور کی علیحدگی کے اصول کے تحفظ پر زور
- مقننہ کے پالیسی ساز اداروں سے استقلال کو برقرار رکھنے کی ضرورت
- شفافیت کی تحریک کو نتیجہ بخش کرنے کی ضرورت ہے۔
- کارکن، سیاسی عناصر اور نظام کے دانشور عناصر سے احتساب کا مطالبہ کرنے اور رائے عامہ کے جواب دینے پر زور
- عہدیداروں کے انتخابی وعدے کو پورا کرنے کی ضرورت
- نوجوانوں بالخصوص خواتین کے مسائل کا صحیح اور قائل کرنے والے طریقے سے سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔
- اور مطالبہ کرنے، انصاف کے حصول اور اس کی حدود کے بارے میں نکات بیاں ہوئے۔

700 /