ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی کا عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداروں سے ملاقات کے دوران خطاب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین

اپنے عزیز بھائیوں کو بہت خوش آمدید کہتا ہوں۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کے ہفتے کی مناسبت سے عدلیہ کے تمام فعّال اور درد رکھنے والے ممبران کہ جو اس ادارے میں خدمت میں مصروف ہیں، ان کی قدر دانی کروں؛ آپ لوگوں اور وہ ہزاروں لوگ جو یہاں تشریف نہیں رکھتے سب کو سلام عرض کرتے ہوئے خدا سے آپ لوگوں کی توفیقات کا خواہاں ہوں؛ انشاءاللہ آپ لوگوں کی خدمت کو خدا قبول فرمائے۔

شہید بہشتی کا قوم کی گردن پر بڑا حق:

ہمارے ایک عظیم شہید، شہید بہشتی کا قوم و ملّت کی گردن پر حق ہے اور وہ اسلامی عدالت کی بنیاد رکھنا ہے۔

یہ کوئی آسان کام نہیں تھا بلکہ ایک مشکل کام تھا۔ انہوں نے عدلیہ میں ایک نئی تحریک کو شروع کیا تھا جو آہستہ آہستہ آگے بھی بڑھ رہی تھی اور اپنا کام بھی انجام دے رہی تھی۔ انہی دنوں میں کچھ شکایتیں موصول ہوتی تھیں اور خود میں نے ان شکایتوں کو ان (شہید) تک پہنچایا تھا اور پوچھا تھا کہ بالآخر آپ کس کام میں مصروف ہیں۔ (اسے کے بعد) انہوں نے اپنے کاموں کی وضاحت دی تھی۔ انہوں نے واقعاً بڑے کاموں کو شروع کیا تھا اور ان کاموں میں سے بہت سے مرحلہ وار اپنے نتیجے تک بھی پہنچ گئے۔

شہید بہشتی کی شخصیت کی بعض خصوصیات:

وہ ایک مفکِّر عالم تھے، نظریہ افراد میں سے تھے؛ مرحوم جناب بہشتی حقیقتاً ایک نمایاں اور ممتاز شخصیت تھے؛ وہ انقلابی تھے؛ واقعاً انقلابی تھے، بہت کوشش کرنے والے تھے؛ وہ انقلابی اصولوں پر دل سے یقین رکھتے تھے۔ اب اگر کچھ لوگ بعض بڑی شخصیات اور مشہور چہروں کا نام لے کر کچھ چیزیں ان سے منسوب کربھی دیں تو حقیقت یہی ہے جو میں عرض کر رہا ہوں: جناب مرحوم بہشتی صحیح معنوں میں انقلاب اور امام خمینیؒ کے دیئے ہوئے اصولوں پر پابند تھے؛ وہ پرہیزگار بھی تھے؛ جناب بہشتی، مؤمن اور شریعت کے پابند تھے۔ میں نے تو ان کے ساتھ کافی وقت گذارا تھا؛ وہ شریعت کا بہت خیال رکھتے تھے اور بہت پرہیزگار انسان تھے، دین کی طرف بڑھنے اور دینی مسئلوں پر عمل کرنے میں سنجیدہ تھے۔ اس کے علاوہ وہ آئین لکھنے والی کمیٹی کے رکن تھے؛ یعنی اس بڑی ہستی کا حق پہچانا اور ادا کیا جانا چاہئے۔

مغرب والوں کی ڈھٹائی – منافقوں کو اسٹیج فراہم کرنا اور انسانی حقوق کا دعویٰ:

منافقوں نے آج ہی کے دن (اٹھائیس جون) ایرانی قوم کے حق میں ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا تھا کہ اس عظیم، نمایاں اور ممتاز شخصیت کے ساتھ تقریباً ستّر دوسری شخصیات کو اس ملک سے چھین لیا۔ انہی قاتلوں نے خود اس جرم اور اس گھناؤنے فعل کا اعتراف کیا تھا۔ ان کے اعترافات سب کے سامنے موجود ہیں۔ لیکن یہ قاتل، انسانی حقوق کے دعویدار ممالک (یعنی) فرانس اور دوسرے یورپی ممالک میں آزادی کے ساتھ آنا جانا کر رہے ہیں، زندگی گذار رہے ہیں فرانس سمیت دوسرے یورپی ممالک کی حکومتوں کو شرم بھی نہیں آتی کہ باوجود اس کے کہ یہ لوگ وہاں رہتے ہیں، ان کی حمایت کرتے ہیں اور حتّٰی اپنی ملکی سطح کی محفلوں میں انہیں اسٹیج فراہم کرتے ہیں اور پھر بھی انسانی حقوق کا دعویٰ کرتے ہیں؛ یعنی ان مغرب والوں کی ڈھٹائی ایک غیرمعمولی اور عجیب چیز ہے۔

عدلیہ کے ادارے میں جہادی کام لوگوں کے اسلامی جمہوریہ کے اداروں پر اعتماد کا باعث اور عظیم اجتماعی سرمایہ:

ضروری ہے کہ میں جناب آغائے رئیسی کے لئے خدا سے توفیقات طلب کروں۔ عدلیہ کا ادارہ فطری طور پر ایک تبدیلی کے دہانے پر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دو سال اور چند ماہ کا عرصہ جس میں وہ چیف جسٹس تھے، انہوں نے کافی زحمتیں اٹھائیں، کوششیں کیں، اور عدلیہ میں کچھ اچھے کام انجام پائے۔ اور جناب آغائے رئیسی کی عدلیہ میں چلائی گئی تحریک اسی چیز کی ایک مثال تھی جس کا ہم ہمیشہ ذکر کرتے ہیں (یعنی) "جہادی تحریک"؛ یعنی سنجیدہ، شب و روز، جدوجہد سے بھرپور؛ دل سے کام کرنا؛ یہ اس طرح کی ایک تحریک تھی کہ الحمد للہ جس کے اچھے اثرات پڑے۔ اور ان اثرات میں سے سب سے اہم یہ تھا کہ لوگوں کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوا۔ لوگ عدلیہ کو اچھی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ ہم مختلف اداروں سے لوگوں کی شکایتوں کو وصول کرتے رہتے ہیں۔ پرانی عدلیہ کے بعد سے لے کر اس عدلیہ کے (دو سال اور کچھ ماہ رہ کر) جانے تک کی مدت میں لوگوں کی رائے میں کافی فرق آیا ہے۔ لوگ عدلیہ کی نسبت پرامید اور مطمئن ہوئے ہیں؛ یہ ایک اجتماعی سرمایہ ہے۔ لوگوں کا اسلامی جمہوریہ کہ سرگرم اداروں پر اعتماد ایک بڑا اجتماعی سرمایہ ہے اور کوئی چیز بھی اس کی جگہ نہیں لے سکتی۔ اور الحمد للہ عدلیہ نے اس سنگ میل کو عبور کیا ہے۔

عدلیہ میں تبدیلی کے رویئے کو جاری رکھنے کی ضرورت:

اب جب کے عدلیہ ایک نئی تبدیلی کے دور سے گذر رہی ہے، میں چند نکتوں کو عرض کرنا چاہوں گا جنہیں عدلیہ کی آئندہ کی روش میں ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بالکل وہی باتیں ہیں جو انہوں (چیف جسٹس) نے بھی بیان کیں اور میں نے بھی انہیں اپنے پاس لکھا ہوا ہے۔

پہلے مرحلے میں، عدلیہ میں تبدیلی کے رویئے کا مسئلہ ہے۔ واضح رہے کہ صحیح معنوں میں تبدیلی ایک یا دو سال میں نہیں آتی لیکن عدلیہ میں اس (تبدیلی کی) تحریک کا آغاز، اس کی طرف بڑھنا اور یہ رویہ ایک بہت اہم چیز تھی؛ اسے جاری رہنا چاہئے، رکنا نہیں چاہئے بلکہ اس میں تیزی آنی چاہئے۔ معاملے کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ جب ایک تحریک کا آغاز کیا جائے اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ اپنے انجام تک پہنچے، تو ضروری ہے کہ نہ صرف اسے راستے میں رکنا نہیں چاہئے بلکہ مسلسل اس میں قوت کا اضافہ ہونا چاہئے اور اسے مضبوط کیا جانا چاہئے تاکہ اسے اپنی منزل مقصود تک پہنچایا جاسکے۔

عدلیہ میں تبدیلی کی دستاویز، ایک مضبوط، عملی اور جاری رہنے کے لئے معیارِ عمل کی دستاویز:

بہرحال یہ کام شروع ہوچکا ہے؛ اب عدلیہ میں ایک دستاویز بن چکی ہے۔ اسے کے بعد اس دستاویز پر نظرِ ثانی بھی کی جاچکی ہے اور اس دستاویز کے اپڈیٹ کئے ہوئے دوسرے نسخے کو انہوں نے پیش کیا اور میں نے دیکھا؛ اچھی اور مضبوط دستاویز ہے۔ بعض اوقات کچھ دستاویزات بنائی جاتی ہیں اس کی صرف یہاں وہاں نمایش کردی جاتی ہے اور (اس کے اندر) ایک کلّی بات لکھ دی جاتی ہے۔ لیکن اس دستاویز میں اس طرح کلّی بات نہیں کی گئی؛ یہ ایک ٹھوس اور اچھی دستاویز ہے؛ پتہ چل رہا ہے کہ یہ مختلف اور بڑی مدّت کے کاموں کے لئے ہے؛ (اس میں) بنیادوں اور آگے بڑھنے کے راستوں کو طے کیا گیا ہے۔ جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ دستاویز صحیح معنوں میں عملی ہے اور صرف نعروں کی حد تک نہیں ہے۔ یہ (تبدیلی کی) دستاویز، ایک اچھی دستاویز ہے؛ اسی دستاویز کو عمل کا معیار بنایا جائے۔ البتہ ہوسکتا ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ اسے اپڈیٹ کرنے کی ضرورت بھی پیش آئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ آگے بڑھنے کے راستے کو مسلسل تبدیلیوں کا شکار کردیا جائے؛ راستہ واضح، سیدھا اور پایدار ہونا چاہئے۔

تبدیلی کی دستاویز کے راستے میں رکاوٹوں کو ہٹانے کی ضرورت اور اس پر عمل کے لئے عدلیہ کی باڈی کی حوصلہ افزائی:

ایک ضرورت یہ ہے کہ اس دستاویز کی اطلاع سب کو دی جانی چاہئے۔ مجھے کچھ رپورٹیں موصول ہوئی ہیں کہ عدلیہ میں کچھ بااثر افراد تک اس دستاویز کی صحیح طرح سے اطلاع نہیں پہنچی ہے؛ (لہذا) اس دستاویز کی اطلاع سب تک پہنچا دی جانی چاہئے تاکہ عدلیہ کے کرتا دھرتا افراد تک یہ پہنچے اور وہ اس پر نظر ڈالیں۔ پہلی بات تو یہ کہ سب اس تبدیلی کی دستاویز کے مطابق اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور سمجھیں؛ دوسرا یہ کہ اگر کسی کی (اس بارے میں) کوئی رائے ہے تو وہ اسے اپنے اعلیٰ حکام تک پہنچائے۔ لہذا اس سے کسی کو بے خبر نہیں رہنا چاہئے۔


تبدیلی کی دستاویز کے نفاذ کے قانونی خلا کو پر کرنے کی ضرورت

 اس دستاویز کے تحت ایک اور چیز یہ ہے کہ میں نے سنا ہے کہ یہاں ایک باقاعدہ خلا موجود ہے ، یعنی اس دستاویز کو مکمل طور پر نافذ کرنے کے لئے قوانین کی ضرورت ہے۔ آپ کو یہ قوانین آمادہ کرنے ہوں گے ، اور ایسا نہ ہونے دیں کہ فرض کے طور پر پارلیمنٹ میں صرف ایک تجویز اور منصوبے کے طور پرباقی رہ جائے، نہیں ، قانون تیار کریں ، مطلوبہ قانون تیار کریں اور اس خلا کو باقی نہ رہنے دیں۔ اس کے علاوہ ، عدلیہ کے نظام کو اس دستاویز پر عمل درآمد کرنے کی ترغیب دی جانی چاہئے۔ آپ کو ہر طرح کے انواع و اقسام کے ترغیب دلانے کے طریقے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ یہ ایک نقطہ ہے جو عدلیہ میں تبدیلی کے عمل سے متعلق اور عدلیہ میں تبدیلی کی سند کے مکمل عمل درآمد اور اجرا سے متعلق ہے۔

 

عوامی حقوق کی بحالی عدلیہ کا ایک اہم اور قانونی فریضہ

 دوسرا نکتہ عوامی حقوق کے احیاء میں عدلیہ کے فعال کردار کا معاملہ ہے ، جو بنیادی طور پر پیداوار اور معطل کار خانہ جات اور اس طرح کے مسائل میں سامنے آیا ہے۔ یقینا ، اس کا احقاق دوسرے شعبوں میں بھی ہوا ، جیسے قدرتی وسائل اور سرکاری اراضی اور اس طرح کے وسائل پر سے قبضے کو ختم کرانا؛ یہ ایک بہت ضروری اور اچھا کام ہے۔ یہ جو بعض کہتے ہیں کہ یہ عدلیہ کے فرائض کا حصہ نہیں ہے یہ مکمل طور پر حقیقت اور قانون کے خلاف ہے۔ عوامی حقوق کے احیاء کے معاملے میں کردار ادا کرنا عدلیہ کا سب سے اہم کام ہے ، یہ پراسیکیوٹر کے کام کا ایک حصہ ہے ، جس میں انکو چوکس رہنا رہنا چاہئے ، محتاط رہنا چاہئے اور عدلیہ کا اس معاملے سے نمٹنا ضروری ہے۔ یہ ایک اہم کام ہے۔ یقینا ، یہ صرف معاشی مسائل ہی نہیں ہیں۔ صحت کا مسئلہ ، تعلیم کا مسئلہ ، ماحولیات کا مسئلہ اور اس جیسے بہت سے معاملات ایسے ہیں جن میں عوامی حقوق کو مدنظر رہنا چاہئے۔

 

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کی پشت پناہی، عوامی حقوق کا ایک مصداق

عوامی حقوق کا ایک مصداق امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مسئلہ ہے۔ یقینا ، بدقسمتی سے ، یہ فریضہ  اس طرح سے ہمارے معاشرے میں رائج نہیں جیسا کہ ہونی چاہئے، لیکن گوشہ کنار میں ایسے لوگ ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔ ان کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے ، ان کی پشت پناہی کی جانی چاہئے۔ البتہ ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کچھ ایسے بھی ہیں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام پر بلوا کرتے ہیں ، اور دوسرے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس بات کو تشخیص دینا کہ کون حقیقی طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا ہے اور کون نہیں یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ کام بھی عدلیہ کا ہے۔ یقینا آپ کو اس شخص کے مسئلے کو دیکھنا چاہے جس کے بارے میں آپ سمجھتے ہیں کہ حقیقی طور سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے ولا ہے۔

 

عوامی حقوق کے معاملے میں قانونی خلا کو پُر کرنے اور ایک مناسب قانون وضع کرنے کی ضرورت

 جیسا کہ مجھے بتایا گیا ، عوامی حقوق کے حصول کے معاملے میں بھی ایک قانونی خلا ہے۔ اب فرض کریں ، مثال کے طور پر ، اس شخص کی کیا سزا ہے جس نے عوامی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے؟ اس کی کیا سزا ہے؟ قانون میں اس کی دقیق وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ لہذا ، یقینا، ، مختلف شہروں ، ملک کے مختلف حصوں میں عدالیہ کو اپنی صوابدید کے مطابق برتاؤ کرنا پڑتا ہے۔ ایک ایک طرح سے برتاؤ کرتا ہے ، دوسرا مختلف طرح سے۔ اس کے لئے بھی قانون کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

 

عدلیہ میں بدعنوانی سے مقابلے اور پاکیزہ عناصر اور ججوں کے وقار کو برقرار رکھنے کی اہمیت

 ایک اور نکتہ عدلیہ کے اندر بدعنوانی کے خلاف جنگ کا معاملہ ہے ، جس کی شروعات بھی عدلیہ میں ہوئی ، اور یہ ایک بہت اچھا کام ہے اور یہ ایک اہم ترین فریضہ ہے۔ یہ عدلیہ کے اولین اور اہم کاموں میں سے ایک ہے۔ البتہ ، میں یہ بھی تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات عدلیہ میں بدعنوانی کے وجود پر ہونے والا شور شرابہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ یہاں تک کہ دیانتدار ، پاکیزہ اور وفادار ججوں کی بھی توہین کی جاتی ہے۔

 

یہ کام بالکل جائز نہیں ہے۔ ملک بھر میں ججوں کی اکثریت معزز ، حوصلہ مند، وفادار ، پاک ، رحم دل، سختی اور مشقت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔ ہوشیار رہیں کہ ان کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ با یامان عناصر کے ساتھ- جو بلاشبہ عدلیہ میں اکثریت میں ہیں - ان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن بالٓاخر، بدعنوان عناصر ، خواہ قلیل تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں، اس کا اثر پڑتا ہے۔ یعنی ، اگر ، مثال کے طور پر ، ایک خاص شہر میں پراسیکیوٹر آفس میں یا کسی خاص عدالت میں ایک اوسط رکن ، جہاں بھی وہ کوئی غلط حرکت کرتا ہے ، اور ایک شخص مطلع ہوجاتا ہے ، وہ دوسرے کو بتاتا ہے، وہ ایک اور کو، نتیجتا یہ بات مشہور ہوجائے گی کہ عدلیہ میں بدعنوانی موجود ہے۔ ایک شخص بدعنوان ہے ، لیکن اس بات کی عکاسی عدلیہ کے لئے بری ہے۔ لہذا [آپ کا ادارے] کو اس مسئلے سے سختی سے نمٹنا چاہیے۔ دیانتدار اور وفادار ججوں کی توہین یا ان کے ساتھ بد تمیزی یا بے رحمانہ سلوک نہیں ہونا چاہئے ، لیکن جن کے ساتھ نمٹا جانا چاہئے ان کے ساتھ صحیح معنوں میں نمٹا جانا چاہئے۔

 

ہمارے پاس بہت ساری عوامی رپورٹس ہیں۔ یعنی ، ہر روز ان پر مشتمل ایک یا دو کتابچے اور اس طرح کی چیزیں مجھے دی جاتی ہیں اور میں انہیں اکثر دیکھتا ہوں۔ ایسی شکایات ہیں کہ ہم اکثر انکو عدلیہ کی طرف بھیجتے ہیں۔ بعض اوقات یہ شکایت کی جاتی ہے کہ ، مثال کے طور پر ، ایک خاص مالیاتی ملزم اور اس طرح کے افراد کسی خاص شہر میں یا کسی خاص عدالت کے اندر فلانہ عنصر سے منسلک ہیں ، وہ دونوں ملے ہوئے ہیں۔ اس طرح کی ایک رپورٹ [آتی ہے]۔ ممکن ہے یہ سچ ہو، یہ غلط بھی ہوسکتی ہے ، لیکن اہم ہے۔ یہ ان مواقع میں سے ایک ہے جہاں ایسی رپورٹ آتی ہے تو ، میں سمجھتا ہوں کہ آپ فوری طور پر معائنہ کریں اور اس کی تفتیش اور جانچ پڑتال کے لئے بھیجیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ حقیقت کیا ہے۔ یعنی ، یہ ان چیزوں میں سے ایک ہے جہاں خوش بینی کے ساتھ بالکل بھی برتاؤ نہیں کیا جانا چاہئے ، مثال کے طور پر ، "نہیں ، جناب ، ہم اس کو جانتے ہیں ، یہ بات [سچ نہیں ہے]"۔ نہیں ، دقت سے دیکھیں؛ یہ ان معاملات میں سے ایک ہے جس میں ایسی رپورٹوں کو غنیمت جاننا چاہئے۔ میرے خیال میں یہ گذشتہ دور میں تھا - اب مجھے وقت یاد نہیں ہے کہ جناب رئیسی کے دور میں تھا یا اس سے قبل- کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو معین کیا تھا جو عدالتوں میں ، شہر کے پرسیکیوٹر دفاتر میں ، معاملات کو قریب سے دیکھنے کے لئے بغیر شناخت کے دورے کرتے تھے؛ یہ ایک بہت اچھا کام ہے۔ ایسے لوگوں کو متحرک کریں ، وہ جائیں اور دیکھیں کہ یہ حقیقت کیا ہے ، یہ دعوی کتنا صحیح ہے۔ بہر حال ، آنکھوں سے دیکھنا بہت موثر ہے۔ کاغذ پر، بہت سی چیزوں کو سمجھا نہیں جاسکتا۔ بدقسمتی سے ، میں عوامی رابطے بحال رکھنے میں اب زیادہ کامیاب نہیں، لیکن کئی سالوں سے میں ہمیشہ عوام سے بہت رابطہ میں تھا۔ میں نے دیکھا کہ بہت ساری چیزیں ملاقاتوں میں، عوامی سطح پر موجود رہنے کے ذریعے، جلسوں میں اور اس طرح کی جگہوں پر سمجھ میں آتی ہیں ، جو کاغذ پر ، تحریری طور پر ، رپورٹس میں ، اور اس طرح کی سمجھ میں نہیں آسکتی ہیں۔

 

عوام اور متحرک گروہوں کے ساتھ عدلیہ کے عہدیداروں کو تعلقات برقرار رکھنے کی ضرورت

 اگلا نقطہ اس عوامی موجودگی کے بارے میں ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے۔ عدلیہ میں جناب رئیسی کے کامیابی کا ایک عنصر عوام میں جانا تھا۔ اس کو ترک نہ کریں۔ عدلیہ کے معزز عہدیداروں کو ان کے بعد یہ روش نہیں چھوڑنی چاہئے۔ یہ ایک بہت اچھا اور اہم کام ہے ، اور جیسا کہ میں نے کہا ، اس میں بہت ساری برکات ہیں۔ دونوں، عوام کے درمیان جانا اور معاشرے میں سرگرم گروہوں کے ساتھ مربوط ہونا۔ جامعات کے فعال گروہ، دینی مدارس کے متحرک عناصر، فعال معاشی حلقے، خواتین کے حقوق سے متعلق فعال گروہ جیسا کہ کچھ اس شعبے میں سرگرم ہیں۔ یا مختلف قوموں کا مسئلہ؛ ان کے رابطہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ عدلیہ کے عہدیدار خصوصا عدلیہ کے سربراہ کے ان شعبوں میں کام کرنے والے گروہوں سے روابط ہوں۔ پیداوار کے میدان میں کچھ مسائل ہیں کہ جب تک کہ کوئی ان سے رابطہ نہیں رکھتا اور انکی نہیں سن لیتا کہ جو پیداوار کے معاملات میں سرگرم ہیں تو ان مسائل کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا ۔ ان فعال گروہوں کے ساتھ رابطہ بھی عوامی موجودگی اور عوامی رابطے کا ایک حصہ ہے جس پر ہمیں دھیان دینا چاہئے۔ سب سے پہلے ، اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ مسائل خود ان سے سن سکتے ہیں ، دوسرا یہ کہ ان کو معاملات کی وضاحت کرسکتے ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مخلتف اداروں کے جو پالیسیاں ہیں جن پر کچھ باہر سے معترض ہوتے ہیں، ان کے کوئی مضموم مقاصد بھی نہیں ہوتے، [لیکن] وہ نا آگاہی کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں۔ یعنی ، وہ اس فیصلے کی گہرائی، یا اس فیصلے کی دلیل نہیں جانتے ہیں۔ کیونکہ وہ نہیں جانتے ، وہ اعتراض کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے، آپ ان کے لئے واضح کریں۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کچھ نکات عدلیہ کے بارے میں تھے۔ انشاء اللہ ، عدلیہ میں اب ایک نیا باب شروع ہوگا ، اور انشاء اللہ ، وہی روش اور طریقہ جو جناب رئیسی کے دور میں ان دو سالوں اور چند مہینوں میں بہت عمدہ طریقے سے تھا ، انشاء اللہ وہی پوری قوت اور مضبوطی اور زیادہ تحرک کے ساتھ جاری رکھیں۔

 

انتخابات کا حماسہ، انتخابات کا بائیکاٹ اور مخالفت کرنے والوں کے سینے پر ایک زوردار مُکَّہ

 میں انتخابات کے بارے میں بھی ایک جملہ کہنا چاہوں گا۔ یہ انتخاب صحیح معنوں میں ایک حماسہ تھا؛ یہ الیکشن جو ہوا وہ درحقیقت اس حماسے کو تخلیق کرنے والے عوام کا حماسہ تھا۔ کوششیں کی جارہی ہیں ، سائبر سپیس میں کاغذات لکھے جا رہے ہیں ، خطوط لکھ رہے ہیں ،  ، مختلف ادراوں میں بیان دے رہے ہیں تاکہ اس انتخاب کی عظمت کا انکار کریں۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ کوشش بیکار ہے۔ یہ ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔ تجزیہ کار جن کی نظر اس الیکشن پر تھی، وہ سمجھ گئے کہ کیا ہوا ہے۔ دنیا میں یہ کہاں عام ہے اور دیکھا گیا ہے کہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کے لئے عوام کو قائل کرنے کے لئے تمام فعال اور مؤثر پروپیگنڈہ مشینری کو استعمال کیا جاتا ہے؟ ایسا کہاں دیکھا گیا ہے؟ آپ کس ملک کے بارے میں جانتے ہیں کہ امریکی ریڈیو ، برطانوی ریڈیو ، کچھ رجعت پسند اور سیاہ چہرہ ممالک کے ریڈیو استعمال کیے جاتے ہیں ، خود ان کے عناصر، ایرانیوں میں غدار عناصر جو امریکی اور برطانوی پرچم تلے زندگی بسر کرتے ہیں اور انکی طرف سے کھلائے پلائے جاتے ہیں ایک طویل عرصہ پہلے ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، سیٹلائٹ ، خاص طور پر سائبر اسپیس میں ، ایک یا دو نہیں بلکہ سیکڑوں ہزاروں نیٹ ورک کی تعداد میں لوگوں کو انتخابات سے دور رکھنے کے لئے فعال ہوجائیں؟ ان کے پاس کچھ بہانے بھی تھے؛ لوگوں کی معاشی مشکلات ان بہانوں میں سے ایک تھا اور انہوں نے اس سے امید لگائی ہوئی تھی۔ بعد میں پیش آنے والے کچھ واقعات ، جیسے اہلیت یا عدم اہلیت کا مسئلہ بھی ، اس کو بھی بہانے کے طور سے استعمال کرتے ہیں۔

 

اب ، ممکن ہے کہ میں قابل احترام گارڈین کونسل کے ان خیالات سے کچھ اتفاق نہ کروں، لیکن گارڈین کونسل قانون کے مطابق اپنے مذہبی فرائض کے مطابق کام کرتی ہے۔ یہ قانون کے پابند اور پرہیزگار لوگ ہیں ، اور وہ مذہبی فریضے کے پابند ہیں ، وہ مذہبی فرائض کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ اب میں مثال کے طور پر ایک مسئلہ، دو مسئلے یا اس سے زیادہ معاملات سے اتفاق نہیں کروں ، لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ [اس طرح کا عمل] کرتے ہیں۔ ان سب کو انہوں نے بہانے قرار دیا ۔ ایک بہانہ یہ تھا ، بہانوں میں سے ایک معاشی مسائل تھے ، اور انہوں نے لوگوں کو رائے شماری میں جانے سے روکنے کی کوششیں کرنا شروع کیں ، اور ان کی امید تھی کہ ٹرن آؤٹ ، مثال کے طور پر ، تقریبا 20 فیصد یا 25 فیصد ہوگا۔ انہوں نے یہ باتیں بھی کیں وہ ان کو بیان کیا۔ اب ایسی صورتحال میں ، لوگ آتے ہیں اور اس طرح حصہ لیتے ہیں۔ کورونا کے باوجود ، جو ماہرین کے حساب کتاب کے مطابق کہتے ہیں کہ کم از کم 10٪ شرکت کی کمی کا تعلق کورونا سے ہے ، اگر ہم اس کا حساب لگائیں تو شرکت 60 فیصد کے قریب ہے ، جو ایک اچھی شراکت ہے۔ اس کے باوجود ، لوگ میدان میں آتے ہیں ، صبح سویرے صف میں لگ جاتے ہیں اور اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں ، اور ان کے پرجوش بیانات ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے ہیں جسے ہم دیکھتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ ایک مضبوط مکہ ہے جسے عوام نے بائیکاٹ کرنے والوں ، مخالفیں اور معارضین کے سینے پر مارا ہے۔ لوگ کھڑے ہوگئے۔ یہ واقعتا ایک کارنامہ ہے ، یہ واقعتا ایک بہت بڑی عظیم تحریک ہے۔ عوام کو بیلٹ بکس سے دور رکھنے کے لئے جن لوگوں نے اس مدت میں یہ کوشش کی وہ اس انتخاب میں شکست خوردہ ہیں۔ لوگوں کو انتخابات میں فاتح اورشکست خوردہ کی تلاش نہیں کرنی چاہئے۔ الیکشن جیتنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے اس انتخاب کو پرجوش و خروش بنانے میں حصہ لیا۔ صدارتی امیدوار فاتحین میں شامل ہیں۔ جن لوگوں نے کافی ووٹ نہیں حاصل کئے وہ بھی فاتح ہیں، کیونکہ انہوں نے لوگوں کو ان بیلٹ باکسوں میں دلچسپی دلانے میں مدد کی۔ اصل فاتح ایرانی قوم ہے ، اور اصل شکست کھانے والے وہ لوگ ہیں جنھوں نے بہت کوشش کی کہ لوگ اس انتخاب میں حصہ نہ لیں  اور عوام نے ان کو مسترد کردیا ، اور ان کے انتخابی نتائج کی امیدوں اور لالچ کو عوام کو چکنا چور کردیا۔ یہ ایک بہت ہی قابل قدر عوامی موجودگی ہے۔ لہذا ایک چیز جو اہم ہے وہ یہ کہ عوامی موجودگی کے کارنامے کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔

 

باطل ووٹوں سے متعلق کچھ کا غلط تجزیہ

 کچھ لوگ غلط رائے پر انحصار کرتے ہیں کہ "جناب ، باطل ووٹ بہت ہیں۔" تو اب کیا؟ غلط ووٹوں کی دلیل کیا ہے؟ کیا باظل ووٹ ان لوگوں کی نظام سے جدائی کی دلیلی ہیں؟ بلکل بھی نہیں! یہ معاملے کے برعکس ہے۔ وہ جو پولنگ اسٹیشن آتا ہے اور ووٹ ڈالنا چاہتا ہے - بیلٹ باکس سے ناراض نہیں ، ووٹ دینا چاہتا ہے - دیکھتا ہے کہ وہ شخص جس پر وہ راضی ہے وہ امیدواروں کی اس فہرست میں نہیں ہے۔ تو وہ کیا کرتا ہے؟ وہ ناراض ہو کر کہہ سکتا ہے ، "اب جبکہ میں جس شخص کو چاہتا ہوں وہ امیدواروں کی فہرست میں شامل نہیں ہے ، اس لئے میں ووٹ نہیں دوں گا ،" اور وہاں سے چلا گیا۔ اگر وہ ناراض نہ ہوا ، اور جاکر ووٹ دیا اور اسی شخص کا نام لکھا - جو باظل ووٹ شمار کیا جائے گا- یا کوئی خالی ووٹ ڈال سکتا ہے ، تو یہ بات واضح ہے کہ اس شخص کو بیلٹ باکس میں دلچسپی ہے ، یہ واضح ہے کہ وہ بیلٹ باکس سے ناراض نہیں ہوا ، نظام میں دلچسپی رکھتا ہے۔ کچھ لوگ مستقل حرکت میں آرہے ہیں اور ان چیزوں کی فضول اور غلط تشریح کر رہے ہیں۔ بہرحال ، خدا کا شکر ہے کہ انتخابات ہوئے اور ہم امید کرتے ہیں کہ انشاءاللہ یہ الیکشن مبارک ہو۔ انتخابات کے دوران ، کچھ چیزیں ایسی تھیں جنہیں تجربہ کے طور پر باقی رکھنا چاہئے اور ایک عبرت کے طور پر رہنی چاہیے کہ جس سے بعد میں ایرانی عوام سبق لے سکے۔

 

صدارتی امیدواروں کی نظر میں ملک کے معاشی مسائل کے حل کے وجود اور تعطل کی عدم موجودگی پر یقین

انتخاباتی مباحثوں میں مختلف سلیقوں کا مشاہدہ کیا گیا۔ لیکن ان تمام معزز امیدواروں نے اتفاق کیا کہ ملک کے معاشی مسائل کا حل موجود ہے۔ اس بات کے قطعی مخالف کہ دشمن جو کہنا چاہتا ہے کہ اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہر ایک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک حل موجود ہے ، لیکن ایک نے کہا کہ میرا حل ٹھیک ہے ،دوسرے نے کہا کہ میرا حل صحیح ہے۔ لیکن سب نے راہ حل میں تعطل سے انکار کیا۔ یہ ایک بہت ہی اہم چیز ہے۔

 

انتخابی بحثوں میں اخلاقی اور ادبی معیارات کی مراعات اور انقلاب کے موقف کا دفاع

 یقینا ، ان مباحثوں کے دوران ، کچھ لوگوں نے ضروری شائستگی اور مذہبی پابندی کے ساتھ ، انقلاب کے موقف کے دفاع میں بات کی۔ کچھ نے بد اخلاقی کا ارتکاب بھی کیا ، جو افسوسناک ہے اور ایسی بداخلاقیاں نہیں ہونی چاہئے۔ ہمیں سیاست ، انتخابات وغیرہ میں کام کرنے کے اپنے طریقے امریکہ سے نہیں سیکھنا چاہئے ، [ہمیں] ٹرمپ اور بائیڈن سے نہیں سیکھنا چاہئے جنہوں نے مباحثوں میں ایک دوسرے کی توہین کی ، ایک دوسرے کے خلاف زبان درزی کی۔ یہ اچھی مثالیں نہیں ہیں ، ان کی طرف نگاہ نہیں کی جانی چاہئے۔ اخلاقی اور مذہبی پہلوؤں کی مراعات کرتے ہوئے ، شائستہ برتاؤ کرنا چاہئے۔ [امیدواروں] کو اپنی بات کہنی چاہیے لیکن بغیر توہین کیے ، بغیر تہمت کے اچھے اخلاق کے ساتھ۔ یہ کام کرنے کا طریقہ ہے۔

 

دشمنوں اور ایرانی انتخابات پر طنز کرنے والوں کے شرمناک انتخابات

 ایران کے دشمنوں کے انتخابات ، امریکہ کی طرح ، پوری دنیا کی نظر میں ایک بدنما انتخابات تھے۔ یعنی ، وہ واقعی شرمناک تھے۔ اب وہی رسوا شدہ ہمارے انتخابات پر تنقید کر رہے ہیں! ایک امریکی عنصر نے ایرانی انتخابات پر تبصرہ کیا۔ ان کی اس رسوائی کے بعد، اب کچھ ہی مہینوں کے بعد وہ زبان باہر نکال رہے ہیں اور باتیں کر رہے ہیں۔ ان کی اپنی پیدا کردہ صورتحال اور رسوائی کے بعد، انہیں ہمارے انتخابات کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے۔

 

منتخب صدر سے عہدیداروں اور امیدواروں کا اظہارِ محبت و عقیدت ایک الہی نعمت

ایک نکتہ جس کے لئے کسی کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ الحمد للہ ، انتخابات اور مقبول امیدوار کے اچھے ووٹ اور اعلی فیصد کی کامیابی کے ساتھ ، ملکی عہدیداروں کا رویہ، اچھا رویہ تھا۔ یہ ملک میں موجود ضروری امن و آشتی کی علامت ہے۔ اس طرح کہ ملک کے اول درجے کے اعلی عہدے دار منتخب صدر سے ملنے آئیں، بات کریں اور تبادلہ خیال کریں۔

 

یہ بہت اچھی بات ہے کہ جن امیدواروں نے کافی ووٹ حاصل نہیں کئے انھوں نے ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو مبارکباد پیش کی اور اس سے اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ یہ بھی ایک الہی نعمت ہے۔ ہم امید کرتے ہیں ، خدا کی رضا ہے ، کہ اللہ تعالٰی ہمارے ملک کے لئے روز بروز اس طرز عمل میں اضافہ کرے گا۔ اس کا موازنہ امریکیوں کے طرز عمل سے کریں ، ایک کے جیتنے کے بعد دوسرے نے اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ آپ کو کچھ مہینے پہلے اس کے الفاظ اور بیانات یاد ہیں کہ کیا صورتحال تھی

 

ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انتخابی نتائج کو با برکت بنائے گا۔ جناب رئیسی کو ذمہ داری کا ملنا ان کے لئے ، ایران اور عوام کے لئے ، اشاءاللہ بابرکت ثابت ہو، اور خدا تعالٰی لوگوں کو اس اقدام کے ثمرات عطا فرمائے اور مدد کرے ، اشاءاللہ، کہ وہ اور دوسرے عہدے دار اپنی اہم ذمہ داریاں عوام کے تعاون سے باخوبی نبہا سکیں۔

والسّلام علیکم و رحمة‌الله و برکاته