ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب کا ٹیلی ویژن پر کورونا وائرس کی نئی لہر سے متعلق خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم

السّلام علی الحسین و علی علیّ بن الحسین و علی اولاد الحسین و علی اصحاب الحسین الّذین بذلوا مهجهم دون الحسین علیه السّلام.

میں تقریر کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ میں صرف ضروری سمجھتا ہوں کہ کورونا وائرس کے وبائی مرض کی نئی لہر کے بارے میں حکام اور اپنی عزیز عوام کے سامنے کچھ نکات اٹھائے جائیں۔

یہ وبائی مرض بے قابو ہوگیا ہے۔ یہ بیماری نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا میں اپنے عروج پر ہے۔ جب یہ دشمن ، کورونا وائرس ، ایک نئی شکل اختیار کر لیتا ہے ، تو ہماری دفاعی تشکیل اور حکمت عملی بھی قدرتی طور پر بدلنی چاہیے۔ جب یہ ایک نئے طریقہ کار کے ساتھ میدان میں داخل ہوتا ہے تو ہمیں بھی نئے پروٹوکول نافذ کرنے چاہئیں اور اس بیماری سے نمٹنے کے لیے نئے ، طاقتور اور مضبوط اقدامات اور تشکیلات اپنانی چاہئیں جو کہ آج ایک بڑا خطرہ ہے۔

میری رائے میں ، کورونا وائرس کا وبائی مرض ملک کا اولین مسئلہ ہے۔ یہ ایک فوری مسئلہ ہے جس کو سنجیدگی سے قابو کرنا چاہیے۔

بیماری کی ابتلا اور اموات کی شرح  واقعی تکلیف دہ ہیں۔ یہ سادہ لگتا ہے ، لیکن جب ہم ایک نظر ڈالتے ہیں ، یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے کہ ہر روز پانچ سو سے زائد خاندانوں کو اپنے عزیزوں کے ضیاع پر ماتم کرنا پڑ ریا ہے یا دسیوں ہزار افراد متاثر ہو رہے ہیں۔ مسئلہ نہ صرف اپنے عزیزوں کا ضائع ہونا ہے ، بلکہ بیمار ہونا بھی بہت سخت ہے۔ جو لوگ متاثر ہو جاتے ہیں اور بیمار ہو جاتے ہیں وہ ادویات ڈھونڈنے ، علاج کرانے ، ٹیسٹ کروانے اور مختلف دیگر مسائل کا سامنا کرنے کے لیے بہت سی مشکلات برداشت کرتے ہیں۔ ہر مسلمان اور ہر ہم وطن کا دل واقعی درد مند ہوتا ہے جب وہ اس صورتحال کو دیکھتا ہے۔ لہذا ، یہاں ہمارے کچھ فرائض ہیں۔

معزز صدر نے خوش قسمتی سے کچھ دن پہلے ایک ڈیڈ لائن مقرر کی جو کہ واقعی ایک اچھا عمل تھا کیونکہ یہ تمام عہدیداروں کو معاملے کی اہمیت کو سمجھنے اور ہر رائے اور ضروری تجویز پیش کرنے میں مدد کرتا ہے۔ میں اس موقع کو یہ کہنے کے لیے استفادہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایک ہفتے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد ، تمام عہدیداروں کو فیصلوں اور تجاویز پر عمل کرنا چاہیے، جو بھی فیصلہ انہوں نے اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا اور جس بھی رائے کا انتخاب کیا۔

میں نے انفیکشن اور اموات کی شرح اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں بات کی ، لیکن یہ معاملے کا ایک پہلو ہے۔ معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ صحت کے عملے کو انتہائی تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ بھی ایک بڑی پریشانی ہے۔ وہ ہر قسم کے جسمانی اور جذباتی دباؤ کا شکار ہیں۔ لہذا ، صحت کے عملے ، معالجین ، نرسیں اور اس طرح کے دوسرے لوگ جہاد کر رہے ہیں۔

میں چاہتا ہوں کہ میں خلوص دل سے ان لوگوں کا شکریہ ادا کروں ، لیکن میرے شکریہ کے الفاظ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ سب سے اہم بات خدا کا شکر ہے جو شاکر ، علیم ہے اور جو ان کی تمام کوششوں کو دیکھ رہا ہے۔
میری چاہتا ہوں کہ عہدیداروں اور عوام کے سامنے کچھ نکات بیان کیے جائیں۔ میں حکام سے جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ بیماری کے پھیلاؤ کے دوران (آغاز میں) ، تشخیصی ٹیسٹ عام ہوئے ، جو کہ ایک اچھا عمل تھا۔ یہ (ابھی بھی) کرنا چاہیے۔ صحت کا نظام اور رضاکارانہ فورسز (بسیج) دونوں کو وسیع پیمانے پر اور مفت تشخیصی ٹیسٹ فراہم کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔ آج ، یہ  [بلا معاوضہ] ٹیسٹ ہر ایک کے لیے نہیں کیے جاتے ہیں۔ کچھ مسائل ہیں۔ افراد کو کچھ رقم ادا کرنی پڑتی ہے جو کہ کچھ لوگوں کے لیے مہنگی ہے۔ چیزوں کو اس طرح بہتر بنانا چاہیے کہ تشخیص اور تشخیصی ٹیسٹ ہر ایک کے لیے دستیاب ہو سکے۔ یقینا بیمہ کمپنیوں کو مدد کرنی چاہیے۔ انتظامیہ کو مدد کرنی چاہیے تاکہ مسئلہ آگے بڑھے اور حل ہو جائے۔

اگلا معاملہ ویکسین کا ہے۔ خوش قسمتی سے کئی ویکسینیں ملک کے اندر تیار کی گئیں اور ملکی پیداوار نے غیر ملکی ویکسین کی درآمد کو آسان بنانے میں مدد کی ، جیسا کہ حکام نے بھی تسلیم کیا۔ جہاں تک غیر ملکی ویکسین کی درآمد کا تعلق ہے ، انتظامیہ اور وزارت صحت نے یہ ویکسین بعض ممالک سے خریدی تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ان کے لیے پوری قیمت بھی ادا کی ، لیکن انہوں نے اپنا وعدہ توڑا اور سودے کی تکمیل نہیں کی۔

جب ہماری اپنی ویکسین مارکیٹ میں داخل ہوئی اور لوگوں نے اسے استعمال کرنا شروع کیا تو حالات بہتر ہوئے اور درآمدات کا راستہ بھی صاف ہوگیا۔ کسی بھی صورت میں ، درآمدات اور قومی پیداوار دونوں کے لیے کوششیں تیز کی جانی چاہئیں تاکہ حکام لوگوں کو ہر ممکن طریقے سے ویکسین فراہم کر سکیں۔ لاکھوں ویکسین قابل رسائی بنائی جائیں۔

اگلا مسئلہ دواؤں کا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ مطب اور ہسپتالوں میں ادویات کی کمی ہے یا ادویات ملنا مشکل ہے ، لیکن یہ کہ وہ بلیک مارکیٹ میں کئی گنا زیادہ قیمت پر دستیاب ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو ، یہ تقسیم کے نیٹ ورک میں ایک بنیادی مشکل کا وجود ظاہر کرتا ہے۔ اس کا سنجیدگی سے مقابلہ کیا جائے اور اس کی روک تھام کی جائے۔ ادویات آسانی سے لوگوں کی پہنچ میں ہونی چاہئیں۔

اگلا نکتہ فوجی دستوں کا تعاون ہے۔ پہلے مہینوں میں ، جب بیماری ابھی ظاہر ہوئی تھی ، فوجی دستے – چاہے فوج ہو یا سپاہ – سنجیدگی سے میدان میں داخل ہوئے اور عظیم کارنامے انجام دیے۔ بسیج نے بہت اچھا تعاون کیا۔ اگرچہ وہ موجودہ وقت میں بھی سرگرم ہیں ، انہیں اپنی پوری صلاحیت استعمال کرنی چاہیے اور لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔
یہ وہ کام ہیں جو عہدیداروں پر عائد ہوتے ہیں اور جو واقعی ضروری ہیں۔ انہیں کسی کے لیے کوئی مصلحت نہیں دکھانی چاہیے۔ میں یہ خاص طور پر لاک ڈاؤن لگانے کے بارے میں نہیں کہہ رہا کیونکہ یہ ایک ماہرانہ معاملہ ہے اور اس کی جانچ اینٹی کورونا وائرس ہیڈ کوارٹر میں ہونی چاہیے۔ تاہم ، اگر وہ کسی خاص نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں ، تو انہیں یقینی طور پر اسے ایک مضبوط اور فیصلہ کن انداز میں نافذ کرنا چاہیے۔

جہاں تک عوام کی بات ہے ، ہماری عزیز عوام کو اس تلخ مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لیکن اس مسئلے کا ایک حصہ پروٹوکول پر عمل نہ کرنے والے لوگوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ شہروں میں لوگ صرف 35٪ یا 40٪ پروٹوکول کی رعایت کرتے ہیں۔ یہ بہت کم ہے۔ عوام 100 فیصد پروٹوکول پر عمل کریں۔ اگر کچھ لوگ ماسک نہیں پہن سکتے اور معاشرتی دوری اور اس طرح کا صحیح طور پر عمل نہیں کرسکتے ہیں تو لوگوں کی اکثریت کو ان کی مکمل رعایت کرنی چاہیے۔

یہ ایک مسئلہ ہے جو ہماری طرف سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر ہم خود پروٹوکول پر عمل نہیں کرتے ہیں تو ، ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی کو خطرہ میں ڈالتے ہیں ، خاص طور پر ہمارے گھرانے کے افراد اور قریبی لوگ۔ لہذا ، مسئلہ کا ایک حصہ ان پروٹوکول کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔ لوگوں کو اتنا ہی حساس اور محتاط رہنا چاہیے جیسا کہ وہ پہلے مہینوں میں تھے جب بیماری ظاہر ہوئی تھی۔

جیسا کہ ماہرین کہتے ہیں ، اگر لوگ تمام پروٹوکول پر عمل کریں تو بیماری کم ہو جائے گی۔ اس طرح ، ملک کے صحت کے اہلکار تھوڑی سانس لے سکیں گے اور تنظیمیں اس کام کو بہترین طریقے سے انجام دے سکیں گی۔ پھر ، ویکسین ہر ایک کے لیے قابل رسائی ہو گی۔ خدا کی مہربانی سے ، ویکسین چند مہینوں میں بڑی تعداد میں دستیاب ہو جائے گی اگر حکام پختہ عزم کا مظاہرہ کریں ، جو کہ ہو گا ، انشاء اللہ۔ ایسے حالات میں ، خطرات کم ہوجائیں گے۔ انفیکشن ہوتے رہیں گے لیکن کوئی بحران نہیں ہوگا ، اموات کی کوئی اونچی شرح نہیں ہوگی اور گھرانے سوگوار نہیں ہونگے۔ اگر لوگ کچھ مزید مہینوں یعنی ایک ، دو ، تین مہینوں کے لیے مکمل طور پر پروٹوکول پر قائم رہیں تو مسئلہ کم ہو جائے گا۔

ایک اور اہم معاملہ امام حسین (ع) اور عاشورہ کی مناسبت سے عزاداری کے اجتماعات کا ہے۔ یہ اجتماعاتبرکت اور الہی رحمت کا ذریعہ ہیں۔ وہ ملک اور قوم کی طرف الہی توجہ مبذول کرانے میں مدد کرتے ہیں۔ ہمیں ان اجتماعات کی ضرورت ہے اور ان کو منعقد ہونا چاہیے ، لیکن ان کا انعقاد اس صورت میں ہونا چاہیے کہ صحت کے پروٹوکول مکمل اور درست طریقے سے رعایت کی جائے۔

ان اجتماعات کا اہتمام کرنے والے عہدیدار ، مقررین ، مبلغین اور منتظمین اور عوام جو ان تقریبات میں شریک ہوتے ہیں انہیں پروٹوکول کی پابندی کرنی چاہیے اور سماجی دوری پرعمل کرنا چاہیے۔ انہیں خدانخواستہ اجازت نہیں دینی چاہیے کہ یہ ان اجتماعات بیماری پھیلانے کے لیے ایک بہانہ بن جائے ، جو مخالفین اور دشمنوں کو بہانہ دے گا کہ وہ امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری اور اجتماعات پر بیماری پھیلانے کا الزام لگائیں۔ آپ کو ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ محرم کے مواقع میں ان پروٹوکول کا مکمل احترام کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک نکتہ ہے۔
اگلا نکتہ لوگوں کے خیراتی عطیات کے بارے میں ہے۔ کچھ لوگوں کو واقعی مدد کی ضرورت ہے۔ عمومی خیرات کی تحریک گزشتہ 18 ماہ کے کچھ ادوار میں بہترین ممکنہ طریقے سے چلائی گئی تھی - خاص طور پر ، اس بیماری کے پھیلنے کے آغاز میں۔ اس وقت ، عطیہ دہندگان اور رضاکار واقعی میدان میں داخل ہوئے اور اپنے جسم سے یا مالی تعاون کے ذریعے مدد کی۔

انہوں نے ان لوگوں کو ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی جن کو اس کی ضرورت تھی ، لیکن یہ جاری رہنا چاہیے۔ تحریک کو پھر سے بڑھانا چاہیے۔ ایسے لوگ ہیں جنہیں اپنا کاروبار بند کرنا پڑتا ہے چاہے لاک ڈاؤن ہو یا نہیں۔ ان لوگوں کو بعض مسائل کا سامنا ہے۔ میری رائے میں مساجد کو یہاں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ مساجد کو صدقہ اور مدد کے مراکز میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہر مسجد میں وہ لوگ جن کو مالی مسائل درپیش ہیں لیکن ان کی عزت ان کو مانگنے کی اجازت نہیں دیتی ان کی نشاندہی کی جانی چاہیے اور لوگ اس سلسلے میں تعاون کر سکتے ہیں۔ یہ میرے کچھ مشورے تھے۔

میری آخری نصیحت دعا اور توسل کے بارے میں ہے۔ تمام باتیں جو میں نے کہی ہیں وہ صرف وسیلہ ہیں۔ وہ جو تمام وسیلوں کا سبب اور خالق ہے وہ خدا قادر مطلق ہے۔ "تیری عنایت سے تمام اسباب کارگر ہو جاتے ہیں" [صحیفہ سجادیہ ، دعا ، 7 سے] یہ خدا ہے جس سے ہمیں مدد مانگنی چاہیے۔ عزاداری کی تقریبات خدا کے سامنے دعا اور التجا کرنے اور اس کی طرف توجہ کرنے کے لیے اچھے مواقع ہیں۔ ہمیں خدا سے دعا کرنی چاہیے ، توبہ کرنی چاہیے اور اس سے اس کا فضل مانگنا چاہیے اور اسی طرح خدا اپنا فضل عطا کرے گا۔

مجھے امید ہے کہ خدا ایرانی قوم کو اپنی رحمتوں اور مہربانیوں سے نوازے گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ ایرانی قوم ، تمام مومنین اور پوری دنیا کے تمام لوگوں کو اس مہلک بیماری سے بچائے گا اور ان کی اس بیماری سے نجات دلانے میں مدد کرے گا۔

والسّلام علیکم و رحمة‌الله و برکاته