ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

قبائلی شہداء کی یادگاری تقریب کے منتظمین سے ملاقات میں خطاب

 بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحیم[1]

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة اللّه فی الارضین

پیارے بھائیوں، بہنوں، پورے ملک کے عزیز قبائلیوں کو خوش آمدید۔ آپ سب کو حضرت ثامن الحجج علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ اس اجلاس، اس کانگریس کو منعقد کر رہے ہیں۔ آپ کا کام بہت اچھا ہے، یہ درست کام ہے۔ یہ اجلاس جس کا آپ اہتمام کر رہے ہیں اور ہماری یہ میٹنگ بھی ملک کے لوگوں کی توجہ قبائل کی طرف مبذول کرانے کا ایک موقع ہے۔ امام خمینی رح نے فرمایا کہ قبائل انقلاب کے ذخائر ہیں(2 )، ملک کے ذخائر ہیں۔ ہمارے لوگوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے پاس قبائل کا ایک قیمتی مجموعہ ہے جو ملک کا ذخیرہ ہیں، یہ لوگوں کو مسلسل یاد رکھنا چاہیے۔ ہماری آج کی ملاقات اور آپ کے اجلاس کا، جسے آپ اس کے مقررہ وقت پر منعقد کریں گے، ایک فائدہ یہ ہے کہ [3] ایرانی قوم کو قبائل سے متعارف کرائے گا اور قبائلی اقوام کی قدر و قیمت سے آگاہ کرے گا۔

میں قبائل سے متعلق مختصر مختصر گفتگو کرنا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے ان بھائیوں کے بیانات کا حوالہ دوں گا۔ اچھے نکات ہیں؛ دونوں بھائیوں نے اس اجلاس یا ان بیس سالوں کی یادگاری تقریبات کے بارے میں جن سرگرمیوں کا تذکرہ کیا، وہ قابل قدر کام ہیں۔ میں نے یہاں بھی اس راہداری میں دیکھا، میں نے سرگرمیوں کی یہ تصاویر دیکھیں اور میں نے سب کو غور سے دیکھا۔ بہت اچھے کام انجام دئیے گئے ہیں۔ یہ تینوں نقطہ نظر جن کا انھوں نے ذکر کیا، یہ تینوں نقطہ نظر اہم ہیں، لیکن اس میں ایک نکتہ ہے اور وہ یہ کہ جب آپ کسی خاندان کو جہیز دیتے ہیں تو یہ جہیز اس کے پاس جاتا ہے اور وہ اسے استعمال کرتا ہے، آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ انہوں نے اسے استعمال کیا ہے۔ یہ قابل مشاہدہ ہے؛ یہاں تک کہ جو چیز اس کے مانند نہیں ہے، مثال کے طور پر، جیسے آپ پودے لگاتے ہیں، آپ پودے لگاتے ہیں - میں نے یہاں اس کی تصویریں دیکھی ہیں - دو سال، پانچ سال، دس سال کے بعد، وہ بڑے ہوجاتے ہیں اور ایک جنگل، ایک باغ، یا ایک سبزہ ایجاد کرتے ہیں؛ اس کا اثر آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ثقافتی کام کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ٹھیک ہے، آپ نے کتاب بنائی، آپ نے فلم بنائی۔ آپ کی کتاب اور آپ کی فلم کا کیا اثر ہوا؟ یہ اہم ہے؛ یہ اتنا آسان نہیں۔ یہ ثقافتی کام کی مشکل ہے؛ ثقافتی کام کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ مقدار اور مادی کام کے ذریعے نتیجہ کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ کتاب ایک انسان نے شائع کی ہے، اسے سو لوگ پڑھ سکتے ہیں، اسے دس ہزار لوگ پڑھ سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پہلے ایڈیشن کی تمام کتابیں بھی فروخت نہ ہوں، ہوسکتا ہے یہ سو ایڈیشن تک بھی پہنچ جائے۔ اسکا کیا کریں گے؟ آپ یہ ثقافتی کام کیسے انجام دیں گے کہ یہ نتیجہ دے؟

آج ہمیں ایرانی قوم کے تمام طبقوں بشمول قبائل میں ثقافتی کام کی ضرورت ہے۔ ایرانی قوم کا دشمن، اسلام کا دشمن، ملک کا دشمن، اسلامی جمہوریہ کا دشمن، آج نرم جنگ پر انحصار کرتا ہے، جس کا میں بعد میں ذکر کروں گا۔ ایسے دوستوں کے لیے جو اس طرح کی تقریبات میں شامل ہیں اور ثقافتی کام میں بھی، ہم نے جس نکتے کو بیان کیا وہ اس پر توجہ دیں: آپ کے کام کا نتیجہ کیا رہا؟ آپ کے کام کا اثر کتنا تھا؟ قبائلی معاشرے پر اس کے اثرات کیا ہیں؟

ایرانی قبائل ایرانی قوم کے سب سے وفادار طبقے میں سے ہیں۔ یہ جو ہم کہ رہے ہیں "انتہائی وفاداروں میں سے ایک" ذوقیہ یا خیالی نہیں، بلکہ ملک میں جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے ہے اور ہم اسے جانتے ہیں۔ ہماری حالیہ تاریخ اور گزشتہ دو سو تین سو سال کی تاریخ میں، غیر ملکیوں، خاص کر انگریزوں کی طرف سے قبائل پر اثر انداز ہونے اور ان میں نفوز کی کوششوں کی داستانیں موجود ہیں۔ عجیب و غریب کام جو اگر وقت اور موقع ہوتا تو ہم یہ باتیں بتاتے۔ آپکو کتابوں میں انھیں پڑھنا چاہیے۔ غیر ملکیوں نے قبائل میں دراندازی کرنے کی کوشش کی اور انہیں ایک طرح سے اپنے ملک سے غداری کرنے پر اکسایا - اب مختلف طریقوں سے؛ ٹوٹ پھوٹ کے ذریعے، خانہ جنگی کے ذریعے، ہر طرح کے ہتھکنڈوں کے ذریعے- لیکن وہ انہیں اس سمت میں نہیں دھکیل سکے جس طرف وہ چاہتے تھے۔ یہ "انتہائی وفادار" اور "انتہائی وفاداروں میں سے" جو ہم کہتے ہیں اس کیوجہ یہ ہے۔

حالیہ دور میں، تحریک انقلاب کا دور، مقدس دفاع کا دور اور مقدس دفاع کے بعد کا دور، قبائل نے بھی بخوبی امتحانات کو عبور کیا؛ یہی بہت اہم ہے کہ قبائلی برادری کے گیارہ ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ ہمارے تمام قبائلی سرحد پر ہی موجود تھے، خطرے میں تھے۔ یقیناً کچھ سرحدوں پر تھے اور انہیں مقدس دفاع شروع ہوتے ہی براہ راست خطرہ لاحق ہوا، لیکن کچھ کیلئے ایسا نہیں تھا، وہ ملک کے وسط میں تھے اور انہیں براہ راست خطرہ نہیں تھا، لیکن ساتھ ہی وہ مقدس دفاعی میدانوں کی طرف بڑھے اور دفاع کیا اور کوشش کی اور کام کیا۔

کیا چیز باعث بنی کہ ہمارے ملک کے قبائل، حالانکہ ان کی قومیں مختلف ہیں، ان کی زبانیں مختلف ہیں، اس طرح ایک ساتھ کھڑے ہو کر اسلام کی خدمت کریں، ملک کی خدمت کریں؟ انکو کس دھاگے میں پرویا گیا تھا؟ یہ چیز دین و مذہب تھی۔ مذہب اتحاد کا عنصر ہے، ترقی کا عنصر ہے، قربانی اور ایثار کا عنصر ہے۔ مذہب کے عنصر نے قبائل کو اس طرح محاذوں پر اکٹھے کھڑے رہنے پر آمادہ کیا۔ ان قومی تنوع اور اس جیسے عوامل کو ان کے درمیان علیحدگی پیدا کرنے، اختلافات پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ مذہب ایسے اثر کا حامل ہے۔

ہمارے عظیم امام راحل رح نے اسی عنصر سے استفادہ کرتے ہوئے اس عظیم انقلاب کو برپا کرکے اسے کامیابی تک پہنچایا اور انقلاب کی فتح کے بعد اسی عنصر سے ملک کو محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ اگر مذہب نہ ہوتا تو انقلاب کامیاب نہ ہو پاتا۔ یقین رکھیں! اس مشکل میدان میں نہتے ہاتھ سڑکوں پر آنے والے اور گولیوں اور ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر کرنے والے ان نوجوانوں کو کوئی اور عنصر آگے نہیں لا سکتا تھا۔ کوئی دوسرا عنصر یہ کام نہیں کر سکتا تھا؛ مذہبی عقیدہ ان کو میدان میں لایا۔ امام رح نے اس انقلاب کو فتح دلانے کے لیے اس عنصر سے استفادہ کیا اور پھر اس ملک کی حفاظت کے لیے بھی لوگوں کے ایمان کے عنصر سے استفادہ کیا۔ انقلاب کے بعد اس ملک پر نظریں تھیں، توقعات وابستہ تھیں۔ ایسا نہیں تھا کہ اچانک صدام کے سر پر ہتھوڑا مارا گیا ہو کہ مقابلے پر کھڑا ہوجائے۔ نہیں، انہوں نے اسے مشتعل کیا، انہوں نے اسے مجبور کیا، انہوں نے اسے امید دلائی، انہوں نے اس سے وعدہ دیا، اور انہوں نے اپنا وعدہ پورا بھی کیا۔ انہوں نے اسے پیسہ دیا، انہوں نے اسے ہتھیار دیے، انہوں نے اسے جنگی منصوبہ دیا تاکہ وہ جنگ کیلئے تیار ہو۔ مقصد یہ نہ تھا کہ وہ ملک کے کسی حصے کو الگ کردے، بلکہ اس کا مقصد ملک کے کسی حصے کو الگ کرکے یا مختلف طریقوں سے اسلامی انقلاب کو ختم کرنا تھا۔ یہی مقصد تھا۔ امریکہ اس کے پیچھے تھا، برطانیہ اس کے پیچھے تھا، فرانس اس کے پیچھے تھا، رجعتی حکومتیں اس کے پیچھے تھیں اور وہ سب جو ان کے غلام تھے۔ وہ سب ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتے تھے، وہ ملک کو امریکی تسلط میں لوٹانا چاہتے تھے، وہ ایرانی قوم پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، امام خمینی رح نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا، کس ذریعے سے؟ مذہب کے ذریعے؛ مذہب اس طرح ہے؛ مذہبی عقیدہ ایسا اثر رکھتا ہے۔

آپ کے شہداء بھی اسی دینی عقیدے کا حسین اور شاندار مظہر ہیں۔ یہ گیارہ ہزار شہداء جو آپ نے پیش کئے، یہ درحقیقت مذہبی عقیدے کا اثر دکھا رہے ہیں۔ یہ نوجوان اپنے گھر میں رہ سکتا تھا، اپنی زندگی میں مگن، اپنے ماحول میں، اپنے والدین کے پاس، اپنی بیوی کے پاس، اپنے بچوں کے پاس، زندگی کی لذتوں سے لطف اندوز ہو سکتا تھا۔ جتنا ممکن ہو - لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، سب چھوڑ دیا۔ اس نے اپنے پیارے بچے کو چھوڑا، اس نے اپنی عزیز بیوی کو چھوڑا، اس نے اپنے پیارے والدین کو چھوڑ دیا۔ کس لیے؟ یہ محرک کیا تھا؟ مذہب تھا۔ اب وہ یا تو وہ مجاہد بن کر واپس آیا، یا زخمی ہوگیا، یا شہید ہو گیا۔ اس کے ماں باپ جو اس مصیبت کو، اس مشقت کو، اس دل کی آگ کو بجھانے، سکون حاصل کرنے کے قابل ہوئے، یہ دین کی برکت سے ہوا، یہ دین کا [اثر] تھا۔

ہمارے ایک دوست نے ایک حادثے میں اپنا بیٹا کھو دیا، وہ تھوڑا اداس تھا۔ تین شہیدوں کا باپ بھی وہاں تھا، میں نے کہا آپ کا ایک بیٹا گیا، اس عظیم  آدمی کے تین بیٹے چلے گئے؛ اس نے کہا، جناب، اس [آدمی] کے بیٹے شہید ہوئے، اسکو غم نہیں ہے!" آپ نے دیکھا، یہ صحیح بات ہے۔ ہاں دردِ دل بہت ہوتا ہے- یہ زخم جو والدین کے دلوں میں اترتا ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا- لیکن شہداء کے اہل خانہ کو تسلی ملتی ہے، وہ صبر کرتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ نوجوان خدا کے پاس ہے، وہ زندہ ہے؛ وہ خدا کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں۔ 
اِنَّ اللَّهَ اشتَریٰ‌ مِنَ المُؤمِنینَ اَنفُسَهُم وَ اَموالَهُم بِاَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ یُقاتِلونَ فی سَبیلِ اللَّهِ فَیَقتُلونَ وَ یُقتَلون؛[4] آن دونوں صورتوں میں اجر ہے؛ دشمن کا جانی نقصان کرنا اور دشمن کے ہاتھوں مارا جانا اجر ہے۔ انہوں نے خدا کے ساتھ تجارت کی۔ اس نوجوان نے بھی خدا کے ساتھ تجارت کی، اور ان والدین اور ان بیواؤں نے بھی خدا کے ساتھ تجارت کی۔ اس معاملے میں مذہب کے عنصر کو نہیں بھولنا چاہیے۔

اب کچھ لوگ، مختلف تجزیوں میں جو وہ کرتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے، امن و آمان برقرار کرنے کے لیے گیا تھا۔ ٹھیک ہے ہاں، یہ بات واضح ہے؛ ملک کی سلامتی، ملک کا امن و آمان انہی قربانیوں کی بدولت ہے، یہ انہی شہادتوں، زخمیوں، جدوجہد اور کشمکش کی بدولت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے ملک کی سلامتی قائم ہے، لیکن اس نوجوان کا مقصد دیں تھا، خدا تھا۔ اس کی مقصد کو دین سے کم تر چیزوں کی طرف تنزل نہیں دینا چاہیے۔ درحقیقت، وہ خدا کے لئے متحرک ہوئے، انہوں نے خدا کے لئے کام کیا، اور اسی لئے شہداء کو عزت دی جاتی ہے۔ اسی لیے شہداء کی عزت ہے۔ خیر، اب کچھ ایسے جن کا دین سے کوئی واسطہ نہیں، وہ بھی ان شہادتوں سے انکار نہیں کر سکتے، [اس لیے] وہ مقاصد میں تحریف کرنے لگ جاتے ہیں۔ اور دشمن کی نرم جنگ کا ایک اہم ترین پہلو مذہب کے اس نصب العین کو لوگوں میں دبانا یا کمزور کرنا ہے - جو کہ سب سے اہم محرک ہے، اعلیٰ ترین محرک ہے۔

آج ملک میں مذہبی روایات اور مذہبی مقدسات کے خلاف جو کچھ کیا جاتا ہے اس کے پیچھے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کرنے والا یہ نہ جانتا ہو، لیکن ایسا ہے اور اسے اس طرف لگایا گیا ہے۔ مذہب کا کمزور ہونا، مذہبی روایات کا کمزور ہونا، مذہبی رسومات اور روایات کا کمزور ہونا، ان پر اعتراض کرنا، ان کو غیر معقول بنا کر پیش کرنا، یہ سب چیزیں ہیں جن کو دشمن استعمال کرتا ہے۔ اب ممکن ہے کہ جو ایسا کرتا ہے وہ نہیں جانتا، وہ متوجہ نہ ہو۔ ہاں بعض اوقات کچھ لوگ غفلت کی وجہ سے ایسی حرکتیں کرتے ہیں۔

آج دشمن مذہبی عقیدے کو کمزور کرنے، امید کو کمزور کرنے، مستقبل اور ملک کے انتظام کی نسبت امید کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن پر وہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں، وہ اس پر منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ [مثال کے طور پر] لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کیا کرنا چاہیے کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ان کا مستقبل  تاریک ہے اور وہ ایک بند گلی میں پھنس گئے ہیں۔ وہ اس پر منصوبہ بندی کرتے ہیں، وہ سائبر اسپیس میں منصوبہ بناتے ہیں اور بعض اوقات، بدقسمتی سے، ہمارے اپنے سرکاری فورمز پر، وہ اسے لوگوں میں اس طرح نشر کرتے ہیں کہ لوگ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ راستے بند ہیں، راستے غلط ہیں، یا وہ یہ نتیجہ اخذ کریں کہ ملک کے حکام، ملکی انتظامیہ کو ملک چلانا نہیں آتا۔ اتنی محنت، اتنی مشقت کی جاتی ہے اور مقابل میں اس طرح کا طرز عمل اپنایا جاتا ہے۔ اب فرض کریں کہ مثال کے طور پر ملک کی پولیس فورس ڈکیتی کے 48 گھنٹوں کے اندر کئی چوروں کو گرفتار کر لیتی ہے، اب انکی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، لیکن ہمارے ہی قومی میڈیا پر اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جیسے حوصلہ افزائی کے بجائے الٹا انکی سرزنش کی جارہی ہے! یہ جان بوجھ کر نہیں ہے - یہ یقینی ہے کہ یہ جان بوجھ کر نہیں ہے - لیکن یہ غفلت ہے؛ یہ غفلتیں دشمن کے حق میں جاتی ہیں۔ جو بھی مستقبل سے متعلق لوگوں کو مایوس کرتا ہے وہ دشمن کے لیے کام کر رہا ہے۔ چاہے وہ جانتا ہے یا نہیں جانتا۔ جو بھی لوگوں کے ایمان کو کمزور کرتا ہے وہ دشمن کے لیے کام کر رہا ہے۔ چاہے وہ جانتا ہے یا نہیں جانتا۔ جو بھی ملک کے حکام کی سرگرمیوں، کوششوں اور منصوبوں کے بارے میں لوگوں میں نا امیدی اور مایوسی پھیلا رہا ہے وہ دشمن کے لیے کام کر رہا ہے۔ چاہے وہ جانتا ہے یا نہیں جانتا۔

بسیج کے ذمہ داران جو قبائل کے مسائل پر کام کرتے ہیں وہ بھی قابل قدر کام کر رہے ہیں۔ ان کاموں کا ذکر دوستوں نے کیا ہے جن کی مثالیں ہم یہاں تصویروں میں دیکھ چکے ہیں۔ ان کاموں پر عمل کرتے رہیں، یہ چیزیں قیمتی ہیں۔ لیکن یہاں صرف بسیج ہی ذمہ دار نہیں ہے۔ بسیج کی محدودیتیں ہوتی ہے، اس کے محدود وسائل ہوتے ہیں، وہ اپنے وسائل کے مطابق کوشش کرتی ہے۔ ملک کے تمام حکام کو کام کرنا چاہیے، متعلقہ حکام کو قبائل کے مسائل کی نشاندہی کرنی چاہیے، ان کو حل کرنا چاہیے، اور جیسا کہ میں نے کہا، خاص طور پر ثقافتی مسائل پر، ان کو سوچنا چاہیے، کام کرنا چاہیے، منصوبہ بندی کرنی چاہیے، صحیح منصوبہ ترتیب دیا جائے، ان شاء اللہ۔

ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی عطا فرمائے اور آپ کے پیارے شہداء کے درجات بلند فرمائے۔ آپ کے شہداء اور ملک کے تمام شہداء وہ ہیں جنہوں نے ہمیں پر امید رہنا سکھایا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جنگجو میدان جنگ میں ایسی حالت میں داخل ہوئے جہاں عام حساب کتاب کے مطابق واقعی فتح کی کوئی امید نہیں تھی۔ واقعی جیت کی کوئی امید نہیں تھی۔ صدام کے حملے کا تیسرا یا چوتھا دن تھا کہ دزفول اور اہواز وغیرہ سے خبریں یکے بعد دیگرے آرہی تھیں۔ میں گیا اور امام سے اجازت لی، میں نے کہا کہ میں وہاں جاؤں گا، شاید میں وہاں افرادی قوت جمع کر سکوں، مجھے یقین تھا - تقریباً یقین، یقین کی مانند - کہ واپسی کا امکان نہیں۔ ہم اس تصور کے تحت وہاں گئے کہ کچھ بھی کرنا ناممکن ہے۔ اچھا، آپ نے دیکھا کہ اسلامی جمہوریہ، ہمارے جوانوں نے، امام خمینی رح کی سپہ سالاری نے اس طرح عمل کیا کہ یہ مقدس دفاع اسلامی جمہوریہ کے مکمل وقار کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، دشمن کو کچلا گیا، اس کی ناک زمین پر رگڑ دی گئی۔ یہ امید ہمارے جنگجوؤں نے دی تھی۔ یعنی تمام حالات میں، حتیٰ کہ جنگ کے آغاز کے حالات جیسے حالات میں بھی، انسان کو الہی مدد اور اپنی کوشش پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ انشاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ان امیدوں کے مطابق ہی معاملہ کرے، آپ کو توفیق عطا فرمائے، آپ کی مدد فرمائے، تاکہ انشاء اللہ آپ اپنی کوششوں سے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں۔ ملک کے ان تمام قبائل کو ہمارا سلام بھیجیں جن کی آپ یہاں نمائندگی کر رہے ہیں۔

والسّلام‌ علیکم‌ و رحمۃ‌ اللّہ ‌و ‌برکاتہ

(1) اس ملاقات کے آغاز میں منتظمین میں سے دو افراد نے کچھ اہم باتیں بیان کیں۔

(2) صحیفۂ امام، جلد 8، صفحہ 19، کہگیلویہ و بویر احمد کے قبائلیوں سے ملاقات میں تقریر،  29 مئي 1979

(3) یہ سہ روزہ کانفرنس چہار محال و بختیاری صوبے میں 19 جون 2022 سے منعقد ہوئی۔

(4) سورۂ توبہ، آيت 111، حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔